حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنؤ: ضلع مجسٹریٹ اور حسین آباد ٹرسٹ کے چئیرمین نے بالآخر یہ تحریری طور پر تسلیم کرلیاہے کہ شیعوں کی تاریخی و مذہبی عمارتیں اور امام باڑے فقط سیروسیاحت کے لئے نہیں ہیں بلکہ ان کی مذہبی حیثیت ہے ۔
ضلع مجسٹریٹ نے مولانا کلب جواد نقوی کی تحریک اور ان کے مسلسل احتجاج کے بعد ۲۸ ستمبر کو ایک تحریری بیان کے ذریعہ یہ اعلان کیاکہ آصفی امام باڑہ( بڑا امام باڑہ) اور دیگر تاریخی و مذہبی عمارتیں جو حسین آباد و متعلقہ ٹرسٹوں کے زیر اہتمام ہیں،مذہبی عمارتیں ہیں جن میں مذہبی پروگراموں پر کوئی پابندی نہیں ہے ،البتہ کورونا پروٹوکول کا دھیان رکھا جائے اور احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔ اب تک بڑا امام باڑہ(آصفی امام باڑہ) سمیت دوسری تمام ایسی عمارتیں جو ٹرسٹ کے زیر اہتمام ہیں ،انہیں سیاحتی مقام( toursit place )سمجھا جاتا تھا ۔یعنی وہاں نہ ہم اپنی مرضی سے مجلس و ماتم کرسکتے تھے اور نہ کوئی دوسرا مذہبی پروگرام منعقد کرنے کے لئے مجاز ہوتے۔
حال ہی میں کورونا وبا کے چلتے مجسٹریٹ اور ٹرسٹ کے چئیرمین نے ایک حکم نامے کے ذریعہ امام باڑوں کو سیاحوں کے لئے کھول دیا تھا مگر مجلس و ماتم کی اجازت نہیں دی گئی تھی ،جس کے بعد مولانا کلب جواد نقوی نے باضابطہ اعلان کردیا کہ ہم ضلع مجسٹریٹ کے اس فیصلے کے خلاف بڑے امام باڑے میں تین دنوں تک مسلسل احتجاجی طورپر مجلسیں منعقد کریں گے۔اگر امام باڑہ مجلس و ماتم کے لئے نہیں کھل سکتا تو ہم قطعی طورپر سیاحوں کے لئے بھی کھولنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔
اس کے بعد مولانانے تین دنوں تک مسلسل مجلسوں کو خطاب کیا ۔اب الحمداللہ ضلع مجسٹریٹ کی جانب سے تحریری طورپر یہ تسلیم کرلیا گیا ہے کہ یہ تمام عمارتیں سیاحت کے لئے نہیں بلکہ مقدس مذہبی مقامات ہیں۔
مولانا کلب جواد نقوی نے اعلان کیا تھاکہ لکھنؤ کے تمام تاریخی پروگرام اب بڑے امام باڑے ہی میں منعقد ہوں گے تاکہ حکومت اور انتظامیہ کو یہ معلوم ہوجائے کہ یہ امام باڑے سیاحت کے لئے نہیں بلکہ عزاداری کے لئے ہیں ۔اس کے بعد انتظامیہ حرکت میں آئی اور انہوں نے اپنی غلطی کا ازالہ کرتے ہوئے امام باڑوں کی مذہبی حیثیت کو قبول کرلیاہے ۔
یہ ایک بڑی کامیابی ہے جس کے بعد شیعہ قوم میں جوش و ولولہ دیکھاجاسکتاہے۔